یوم پیدائش 01 جنوری 1977
رہتا ہے کوئی حسن کا پیکر مرے اندر
کہرام مچاتا ہے جو دن بھر مرے اندر
یہ بات الگ ہے کبھی آنسو نہیں آئے
بہتا ہے مگر غم کا سمندر مرے اندر
چہروں کے خدوخال سے یہ فرق عیاں ہے
بستی ہے لگن آپ کے باہر، مرے اندر
جس دن کہ تجھے دیکھ کے پائی تھی مسرت
ٹہرا ہے اُسی دن سے وہ منظر مرے اندر
جو جسم کے مندر کو سمجھتا ہی نہیں ہے
رہ جائے گا وہ شخص الجھ کر مرے اندر
اس شخص کو مل کر میں کہیں ٹوٹ نہ جاؤں
چلتے ہیں خیالات کے پتھر مرے اندر
دیکھا ہے اسے آج کہیں بیس برس بعد
تصویر نے بدلے کئی تیور، مرے اندر
مستی ہے یہ مجھ میں دلِ درویش کے دم سے
کرتا ہے کوئی رقص، قلندر مرے اندر
گل یہ بھی نہ پوچھے گی کہ کیا تم کو پتا ہے ؟؟
رہتا ہے سوالوں کا بونڈر مرے اندر
گُلِ رابیل
No comments:
Post a Comment