Urdu Deccan

Monday, February 28, 2022

حیات لکھنوی

 یوم پیدائش 27 فروری 1931


یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا

تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا


یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے

سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا


جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو

مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا


دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو

ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا


یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر

جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا


اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے

لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا


شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ

مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا


حیات لکھنوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...