یوم پیدائش 28 فروری 1914
جوش پر آیا نہیں ہے رقص مستانہ ابھی
رہنے دو گردش میں تھوڑی دیر پیمانہ ابھی
جام خالی ہو کسی کا کوئی خم کے خم چڑھائے
یار سمجھے ہی نہیں آداب مے خانہ ابھی
اک ذرا پیر مغاں دے دے ہمیں بھی اختیار
لا کے جوبن پر دکھا سکتے ہیں مے خانہ ابھی
عشق کی فطرت نہ بدلی ہے نہ بدلے گی کبھی
شمع روشن کیجئے آتا ہے پروانہ ابھی
دے دیا دل ہم نے پورا ہو گیا یوں ایک باب
مان جائیں آپ تو پورا ہے افسانہ ابھی
سن رہے ہیں آ رہی ہے ہر طرف تازہ بہار
اپنا گھر کیوں لگ رہا ہے مجھ کو ویرانہ ابھی
اے فریدیؔ وہ ستاتے ہیں ستا لینے بھی دو
کمسنی ہے اور ہیں انداز طفلانہ ابھی
رئیس الدین فریدی
No comments:
Post a Comment