یوم پیدائش 09 فروری 1938
مسحور فضا کیوں ہے مجبور صبا کیوں ہے
رنگوں کے حصاروں میں نغمات کا جادو ہے
موجوں سے الجھنا کیا طوفان سے گزرنا کیا
ہر ڈوبنے والے کو احساس لب جو ہے
اس دور خرد میں بھی اے کاش یہ ممکن ہو
تو سوچے کہ بس میں ہوں میں سمجھوں کہ بس تو ہے
کب آنکھ جھپک جائے تصویر بدل جائے
ہر لمحہ سبک رو ہے ہر جلوہ تنک خو ہے
بازار تمنا کی ہر چیز ہی نازک ہے
اجناس غم دل ہیں پلکوں کی ترازو ہے
ظہیر صدیقی
No comments:
Post a Comment