یوم پیدائش 22 فروری 1947
کون جانے وہ رخ مہر کہاں روشن تھا
قریہء عشق میں امکانِ زیاں روشن تھا
اس لئے خواہش تعبیر نہیں ہے ہم کو
خواب جو چھوڑ گیا دل پہ نشاں روشن تھا
پھر بھی بستی سے اندھیرا نہیں چھٹنے پاتا
گرچہ کار سحر شیشہ گراں روشن تھا
کیا زمانہ ہے کہ بے رنگ ہے فصلِ گل بھی
وہ بھی لمحے تھے کہ جب دور خزاں روشن تھا
جس کو سوچا تھا عقیدت سے خداؤں کے لیے
وہ چراغ آج سرِ طاقِ بتاں روشن تھا
سرور جاوید
No comments:
Post a Comment