Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

اعجاز رحمانی

 یوم پیدائش 12 فروری 1936


اب کرب کے طوفاں سے گزرنا ہی پڑے گا

سورج کو سمندر میں اترنا ہی پڑے گا


فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے

خوشبو ہے اگر وہ تو بکھرنا ہی پڑے گا


پڑتی ہے تو پڑ جائے شکن اس کی جبیں پر

سچائی کا اظہار تو کرنا ہی پڑے گا


ہر شخص کو آئیں گے نظر رنگ سحر کے

خورشید کی کرنوں کو بکھرنا ہی پڑے گا


میں سوچ رہا ہوں یہ سر شہر نگاراں

یہ اس کی گلی ہے تو ٹھہرنا ہی پڑے گا


اب شانۂ تدبیر ہے ہاتھوں میں ہمارے

حالات کی زلفوں کو سنورنا ہی پڑے گا


اک عمر سے بے نور ہے یہ محفل ہستی

اعجازؔ کوئی رنگ تو بھرنا ہی پڑے گا


اعجاز رحمانی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...