یوم پیدائش02 فروری 1970
سلسلہ در سلسلہ ہے درد کی زنجیر کا
کس سے پوچھوں کیا ہے منشا کاتبِ تقدیر کا
بے نوا ہونے لگے الفاظ میرے شہر میں
مٹ رہا ہے رفتہ رفتہ نقش ہر تحریر کا
لوگ کچھ معصوم سے مارے گئے اس شہر میں
کرنا ہوگا قاتلوں کو سامنا تعزیر کا
زندگی برباد ہو کر موت کا ساماں ہوئی
جانے کب ٹوٹے گا حلقہ درد کی زنجیر کا
میں نے اپنے دل کا خوں فیاض کرڈالا مگر
ختم ہوتا ہی نہیں ہے کھیل یہ تقدیر کا
فیاض وردک
No comments:
Post a Comment