یوم پیدائش 03 فروری 1939
ہمیشہ تنہا کسی دن نہ قافلے میں رہا
الگ تھلگ جو رہا ہے وہ فائدے میں رہا
کبھی ہَوا، کبھی طوفان برف کی آندھی
ہمیشہ کوئی نہ کوئی مقابلے میں رہا
وہ میرا دل ہو ‘ مرا ذہن میرا سوچ اخی
انہیں کا ذکر ہمیشہ کتابچے میں رہا
مری زمین پہ کیا کیا گذر گئے فتنے
تمہارا دل توہمیشہ مُراقبے میں رہا
ہر ایک پَل مری عمرِ رواں شمار میں ہے
کہ لمحہ لمحہ ہمیشہ محاسبے میں رہا
میں ایک لمحہ بھی غافل کہاں ہُواتجھ سے
تراخیال بیابان ‘ راستے میں رہا
میں تیرے صفحوں پہ آیا نہیں تو غم بھی نہیں
یہ کم کہاںہے مرا ذکر حاشیے میں رہا
جو آئینے سے ہٹا گم ہُوا ‘ ہَوا کی طرح
تمہارا چہرہ کہاں کوئی آئینے میں رہا
کہ اُس کا ذکر رہا صرف ذائقے کی طرح
یہ اور بات ہے جاویدؔ قافلے میں رہا
اختر جاوید
No comments:
Post a Comment