یوم پیدائش 16 فروری 1954
بظاہر تجھ سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں ہے
دلاسوں سے بہلتا یہ دل ناداں نہیں ہے
چمن میں لاکھ بھی برسے اگر ابر بہاراں
تو نخل دل ہرا ہونے کا کچھ امکاں نہیں ہے
ہوائے وقت نے جس بستئ دل کو اجاڑا ہے
اسے آباد کرنا کام کچھ آساں نہیں ہے
وہ اک دیوار ہے حائل ہمارے درمیاں جو
کسی روزن کا اس میں اب کوئی امکاں نہیں ہے
اگرچہ کھا گئی دیمک غموں کی بام و در کو
مگر ٹوٹی ابھی تک یہ فصیل جاں نہیں ہے
تمہاری روح بشریؔ قید ہے تن کے قفس میں
اسے آزاد کرنا معجزہ آساں نہیں ہے
بشریٰ فرخ
No comments:
Post a Comment