یوم وفات 28 فروری 2008
وہ جو اک خنجرِ قاتل میں چمک ہوتی ہے
اصل میں خون شہیداں کی لپک ہوتی ہے
دل سے رخصت ہواجب درد تو اندازہ ہوا
بعض اوقات سکوں میں بھی کسک ہوتی ہے
اب کوئی ناقدِ غم ہے نہ کوٹی محرمِ شب
دل کے داغوں میں مگر اب بھی چمک ہوتی ہے
کاغذی پھولوں سے گلشن کو سجانے والو
پھول کا جوہرِ ذاتی تو مہک ہوتی ہے
شاخِ گل کو ترے وعدہ سے بھلا کیا نسبت
شاخِ گل میں بھی کہاں اتنی لچک ہوتی ہے
میں ترے حسنِ تکلم کو غزل کہتا ہوں
ہر غزل میں ترے لہجہ کی کھنک ہوتی ہے
جذبہ و فکر کی بارش کے تھہرتے ہی نیاز
ذہن کے گرد خیالوں کی دھنک ہوتی ہے
نیاز بدایونی
No comments:
Post a Comment