Urdu Deccan

Friday, February 25, 2022

اکرم نقاش

 یوم پیدائش 18 فروری 1961


دشت کو ڈھونڈنے نکلوں تو جزیرہ نکلے

پاؤں رکھوں جو میں ویرانے میں دنیا نکلے


ایک بپھرا ہوا دریا ہے مرے چار طرف

تو جو چاہے اسی طوفاں سے کنارہ نکلے


ایک موسم ہے دل و جاں پہ فقط دن ہو کہ رات

آسماں کوئی ہو دل پر وہی تارا نکلے


دیکھتا ہوں میں تری راہ میں دام حیرت 

روشنی رات سے اور دھوپ سے سایہ نکلے


اس سے پہلے یہ کبھی دل نے کہا ہی کب تھا

رات کچھ اور بڑھے چاند دوبارہ نکلے


آنکھ جھکتی ہے تو ملتی ہے خموشی کو زباں

بند ہونٹوں سے کوئی بولتا دریا نکلے


عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر

کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے


سحر نے تیرے عجب راہ سجھائی ہم دم

ہم کہاں جانے کو نکلے تھے کہاں آ نکلے


اکرم نقاش




No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...