یوم پیدائش 17 فروری 1833
میرے پہلو میں ہمیشہ رہی صورت اچھی
میں بھی اچھا مری قسمت بھی نہایت اچھی
آپ کی شکل بھلی آپ کی صورت اچھی
آپ کے طور برے آپ سے نفرت اچھی
حشر کے دن ہمیں سوجھی یہ شرارت اچھی
لے چلے خلد میں ہم دیکھ کے صورت اچھی
تجھ سے کہتا تھا کوئی یا تری تصویر سے آج
آنکھیں اچھی تری آنکھوں کی مروت اچھی
ہم نے سو بار شب وصل ملا کر دیکھا
اے فلک چاند سے وہ چاند سے صورت اچھی
نہ بنے کام تو کس کام کی نازک شکلیں
نازک اچھے نہ حسینوں کی نزاکت اچھی
اس سے کوئی نہیں اچھا جو تجھے پیار کرے
میں بھی اچھا ترے صدقے مری قسمت اچھی
تیری مدفن سے جو اٹھے وہ بری اے واعظ
ان کے ٹھوکر سے جو اٹھے وہ قیامت اچھی
جور تیرے بہت اچھے ستم گردوں سے
اور ان سے تری آنکھوں کی ندامت اچھی
منہ میں جب بات رکی چوم لیا پیار سے منہ
دم تقریر کسی شوخ کی لکنت اچھی
دیکھتے ہی کسی کافر کو بگڑ جاتی ہے
میں جو چاہوں بھی تو رہتی نہیں نیت اچھی
حسن صورت کی طرح حسن سخن ہے کم یاب
ایک ہوتی ہے ہزاروں میں طبیعت اچھی
تجھ سے جلتا ہے جو وہ اور جلاتے ہیں اسے
مرے حق میں مرے دشمن کی عداوت اچھی
آتے جاتے نظر آتی ہے جھلک چلمن سے
پردے پردے میں نکل آئی یہ صورت اچھی
خوگر غم کے لیے کچھ بھی نہیں عیش کا خواب
ایسی راحت سے ہمیشہ کی مصیبت اچھی
دے کے وہ بوسۂ لب شوق سے لیں دل میرا
عذر کیا ہے جو ملے مال کی قیمت اچھی
سن کے اشعار مرے سب یہی کہتے ہیں ریاضؔ
اس کی قسمت ہے بری اور طبیعت اچھی
ریاضؔ خیرآبادی
No comments:
Post a Comment