یوم پیدائش 02 فروری 1929
برق ملتی ہے نہ تنکوں کو شرر ملتا ہے
دل کو برسات میں بے برگ شجر ملتا ہے
اس کی گرمئ سخن راس نہ آئی اس کو
اب وہ ملتا ہے تو کیا خاک بسر ملتا ہے
صرف جینے کی ہوس ساتھ رہے تو شاید
عمر کے ساتھ ہر اک گام پہ در ملتا ہے
چار دیواری سے شاید نہیں کچھ اس کو مفر
گھر کے باہر وہ بہ انداز دگر ملتا ہے
میں اسے بھول کے زندہ رہوں ممکن ہے مگر
مجھ کو ہر موڑ پہ اس شخص کا گھر ملتا ہے
جس کے کاسے میں انا ہے کوئی تخلیق نہیں
اس کو ہر لفظ میں اک کاسۂ سر ملتا ہے
درد کے ساتھ جڑا ہوتا ہے تخلیق کا کرب
کچھ سوا مجھ کو بہ ہنگام ہنر ملتا ہے
اب شہادت سر منبر ہی سہی عام ہوئی
اب دعاؤں کو کہاں باب اثر ملتا ہے
کل جہاں لاش پڑی تھی کوئی اقبال متینؔ
آج بھی کون وہاں خون میں تر ملتا ہے
اقبال متین
No comments:
Post a Comment