یوم پیدائش 02 فروری 1941
میں دور ہو کے بھی اس سے کبھی جدا نہ ہوا
کہ اس کے بعد کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
تمام عمر مرا مجھ سے اختلاف رہا
گلہ نہ کر جو کبھی تیرا ہم نوا نہ ہوا
وہ جاتے جاتے دلاسے بھی دے گیا کیا کیا
یہ اور بات کہ پھر اس سے رابطہ نہ ہوا
ہزار شکر سلامت ہے میرا سر اب بھی
ہزار دشمن جاں سے بھی دوستانہ ہوا
ذرا سی چوٹ پہ جھنکار گونج اٹھتی ہے
کہ ساز ٹوٹ گیا پھر بھی بے صدا نہ ہوا
کچھ اتنا سہل نہیں تھا ضمیر کا سودا
بلا سے میں کبھی اہل قبا ہوا نہ ہوا
عجب ہے یادوں کی بہتی ہوئی یہ خشک ندی
لہو کو آنکھ سے ٹپکے ہوئے زمانہ ہوا
لطف الرحمن
No comments:
Post a Comment