یوم پیدائش 14 فروری 1914
ہر گھڑی کرب مسلسل میں کٹی جاتی ہے
زندگی اپنے گناہوں کی سزا پاتی ہے
یاد آؤں کہ نہ آؤں مری قسمت لیکن
ان سے امید ملاقات چلی جاتی ہے
یوں مرے بعد ہے دنیا پہ اداسی طاری
جیسے دنیا مرے حالات کا غم کھاتی ہے
جب بھی آتا ہے تصور ترے انسانوں کا
ایک فریاد مرے منہ سے نکل جاتی ہے
خوش رہو دشت تمنا کی ہواؤ کہ مجھے
تم سے بچھڑے ہوئے یاروں کی مہک آتی ہے
زندگی میں کئی ایسے بھی ملے تھے ساتھی
روح اب جن کے تصور سے بھی گھبراتی ہے
غور کرتا ہوں جو شفقتؔ کبھی تنہائی میں
اپنے حالات پہ تا دیر ہنسی آتی ہے
شفقت کاظمی
No comments:
Post a Comment