یوم پیدائش 01 مارچ 1986
کبھی ایسے چلوں کہ آبلہ پائی بھی مسکائے
کبھی ٹھہروں تو پتھریلی زمیں کی آنکھ بھر آئے
کبھی خود کو پڑھوں تو چاند کے لب تھرتھرا جائیں
کبھی کچھ یوں لکھوں کو آسماں کا دل پگھل جائے
کبھی ٹھنڈی ہوائیں آ کے کھیلیں میرے گیسو سے
کبھی خوشبو مری زلفوں میں آکر قید ہوجائے
کبھی ساون بجھائے پیاس اپنی میرے اشکوں سے
کبھی دریا مری آنکھوں میں اترے او رشرمائے
کبھی یوں ہو کہ پتھر کو میں قطرہ قطرہ پی جاؤں
کبھی یوں ہو شرارہ مجھ کو چھوتے ہی پگھل جائے
کبھی رنگین بارش سرخ کردے اوڑھنی میری
کبھی قوسِ قزح کا رنگ چہرے پر بکھر جائے
کبھی مجھ سے ہی آکر تتلیاں میرا پتا پوچھیں
کبھی اک مورنی میرے پروں پر خوب اترائے
کبھی سورج کی کرنیں مانگ میں پھیلا کے کھو جاؤں
کبھی کردوں فضا کو مضطرب وہ آگ برسائے
کبھی ابھرے فصیلِ زندگی پر بن کے سورج وہ
کبھی نغمہؔ شبِ تاریک میں مہتاب بن جائے
نغمہ نور
No comments:
Post a Comment