Urdu Deccan

Friday, March 18, 2022

افروز رضوی

 یوم پیدائش 03 مارچ 1969


یہ خواب جس نے دکھائے تھے اک سفر کے مجھے 

وہ اشک دے گیا آنکھوں میں عمر بھر کے مجھے 


ہے فن میں یکتا وہ صیاد ہو کہ ہو دلبر 

اڑان بھرنے کو کہتا ہے پر کتر کے مجھے 


کٹھن تھا راستہ دشوار تھی ہر اک منزل 

کوئی دکھائے اسی راہ سے گزر کے مجھے 


میں اس کی خاص نظر سے تڑپ تڑپ اٹھوں 

وہ اتنے پیار سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے 


ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا 

ذرا سا دیکھ لے وہ بھی تو آنکھ بھر کے مجھے 


مرے خیال کی الجھن کہاں سدھرتی ہے 

گل بہار نے دیکھا ہے پھر سنور کے مجھے 


سلگ رہی ہوں میں سانسوں کی تیز بھٹی میں 

پلا رہا ہے وہ الفت کے جام بھر کے مجھے 


وہ شہد گھول رہا ہے سماعتوں میں مری 

بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے 


دھڑک رہا ہے محبت میں دل مرا افروزؔ 

گزر رہی ہیں ہوائیں بھی پیار کر کے مجھے


افروز رضوی 


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...