یوم پیدائش 03 مارچ 1969
یہ خواب جس نے دکھائے تھے اک سفر کے مجھے
وہ اشک دے گیا آنکھوں میں عمر بھر کے مجھے
ہے فن میں یکتا وہ صیاد ہو کہ ہو دلبر
اڑان بھرنے کو کہتا ہے پر کتر کے مجھے
کٹھن تھا راستہ دشوار تھی ہر اک منزل
کوئی دکھائے اسی راہ سے گزر کے مجھے
میں اس کی خاص نظر سے تڑپ تڑپ اٹھوں
وہ اتنے پیار سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
ذرا سا دیکھ لے وہ بھی تو آنکھ بھر کے مجھے
مرے خیال کی الجھن کہاں سدھرتی ہے
گل بہار نے دیکھا ہے پھر سنور کے مجھے
سلگ رہی ہوں میں سانسوں کی تیز بھٹی میں
پلا رہا ہے وہ الفت کے جام بھر کے مجھے
وہ شہد گھول رہا ہے سماعتوں میں مری
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
دھڑک رہا ہے محبت میں دل مرا افروزؔ
گزر رہی ہیں ہوائیں بھی پیار کر کے مجھے
افروز رضوی
No comments:
Post a Comment