Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

امتیاز علی

 یوم پیدائش 23 مارچ 1982


قدیم دشت کے حالات سے نکلنا ہے

کہ عشق جیسی روایات سے نکلنا ہے


ہمی نے ، پہلی محبت میں ،فیصلہ کِیا تھا 

کہ دوسری کی خرافات سے نکلنا ہے


دماغ خالی کِیا ، بند کرلی ہیں آنکھیں 

مزید یہ کہ خیالات سے نکلنا ہے


پتہ نہیں ہے کہاں جانا ہے کہاں کے ہیں 

ہمیں تو تیرے مضافات سے نکلنا ہے 


ہم ایسے لوگ ہیں جن کے سوال ہوتے نہیں

سو ہم کو اپنے جوابات سے نکلنا ہے 


کنارے شام کھڑے سوچتے رہے دونوں 

کہ کس طرح ہمیں دن رات سے نکلنا ہے


قریب تھا کہ ہمیں معجزہ کوئی لگتا 

سو برگزیدہ کرامات سے نکلنا ہے


ہم آدمی ہیں بنے ، ایک دوسرے کے لئے

بس اپنے اپنے مکافات سے نکلنا ہے


خیال ہے یہ زمیں ہی الٹ دی جائے گی 

ہمیں خیال کے خدشات سے نکلنا ہے


پگھل رہے ہیں ترے حسن کے محل میں ہم 

کہ برف پوش محلات سے نکلنا ہے


مکانِ دل کہ کھنڈر ہو چکا ہے ویراں بھی

کھنڈر سے ہوتے مکانات سے نکلنا ہے


امتیاز علی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...