یوم پیدائش 27 مارچ 1956
کیا کوئی تصویر بن سکتی ہے صورت کے بغیر
پھر کسی سے کیوں ملے کوئی ضرورت کے بغیر
دشمنی تو چاہنے کی انتہا کا نام ہے
یہ کہانی بھی ادھوری ہے محبت کے بغیر
تیری یادیں ہو گئیں جیسے مقدس آیتیں
چین آتا ہی نہیں دل کو تلاوت کے بغیر
دھوپ کی ہر سانس گنتے شام تک جو آ گئے
چھاؤں میں وہ کیا جئیں جینے کی عادت کے بغیر
بچ گیا دامن اگر میرے لہو کے داغ سے
وہ مرا قاتل تو مر جائے گا شہرت کے بغیر
اس کی سرداری سے اب انکار کرنا چاہیے
روشنی دیتا نہیں سورج سیاست کے بغیر
حسن کی دوکان ہو کہ عشق کا بازار ہو
یاں کوئی سودا نہیں ہے دل کی دولت کے بغیر
شبنمی چہرہ چھپاؤں کیسے بچوں سے فہیمؔ
شام آتی ہی نہیں گھر میں طہارت کے بغیر
فہیم جوگاپوری
No comments:
Post a Comment