یوم وفات 23 مارچ 1887
افشاں چمک کے زلف دوتا ہی میں رہ گئی
کچھ روشنی سی ہو کے سیاہی میں رہ گئی
سمجھوں گا تجھ سے روز قیامت میں اے جنوں
گر کوئی بات میری تباہی میں رہ گئی
آئیں ہزارہا شب ہجراں میں آفتیں
پر صبح اس کی علم الٰہی میں رہ گئی
آ ہی چکی تھی اس کی ادا سے بلا مگر
کچھ شرم کھا کے شوخ نگاہی میں رہ گئی
نوابؔ اپنے دل کو میں کیوں کر نکالتا
کنگھی الجھ کے زلف رسا ہی میں رہ گئی
نواب کلب علی خان
No comments:
Post a Comment