یوم پیدائش 23 مارچ 1940
زندگی بھر تو سدا جبر سہے صبر کیے
موت کے بعد مجھے کیا جو مری قبر جیے
کھولتے لاوے کے مانند ابلتا ہے دماغ
جب یہ حالت ہو تو کب تک کوئی ہونٹوں کو سیے
جسم زخمی ہو تو سینا بھی اسے ممکن ہے
روح پر زخم لگے ہوں تو انہیں کون سیے
راہرو راہ میں کیڑوں کی طرح رینگتے رہیں
راہ بر اونچی ہواؤں میں ہیں پلکوں کو سیے
وہ اگر چاہیں تو تقدیر بدل سکتی ہے
پر نہیں ان کو غرض کوئی مرے کوئی جیے
روشنی دور بہت دور ہے پھر بھی ہم سے
جگمگاتے ہیں افق تا بہ افق لاکھوں دیے
کیسے زندہ ہوں ابھی تک نہیں سمجھا خود بھی
زخم کھائے ہیں بہت میں نے بہت زہر پیے
خواجہ محمد زکریا
No comments:
Post a Comment