یوم پیدائش 04 اپریل
وہ گّھل رہا ہے مرے سینہِ سفال میں مست
میں اس خمار میں رقصاں میں اپنے حال میں مست
میں فرض فرض میں دنیا بنا کے بیٹھ گیا
میں فرض کرکے پڑا تھا ترے وصال میں مست
مجھے یقیں ہے کہ تو نعمتوں میں ہوگا شمار
سوال ہوگا ترا اور میں سوال میں مست
بہک رہی ہیں سبو زاد سی بھری آنکھیں
چھلک رہی ہے یہ صہبا بھی اپنے حال میں مست
وہ لڑکھڑاتی ہوئی نشّہِ بساط کی شہ
میں مات ہوتا ہوا اسکی چال چال میں مست
کہیں میں ٹوٹ نہ جاؤں ترا بنایا ہوا
میں روز و شب یہاں اپنی ہی دیکھ بھال میں مست
ہمہ خیال ، دما دم بہ جانِ عجزِ ہزار
جمالِ رقص مری مستیِ دھمال میں مست
بابر علی اسد
No comments:
Post a Comment