Urdu Deccan

Tuesday, April 12, 2022

مرزا غالب

 یوم پیدائش 27 دسمبر 1797


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہوتے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہوتے تک


دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک


عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک


تا قیامت شب فرقت میں گزر جائے گی عمر

سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہوتے تک


ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک


پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہوتے تک


یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل

گرمیٔ بزم ہے اک رقص شرر ہوتے تک


غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جز مرگ علاج

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتے تک


مرزا غالب



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...