Urdu Deccan

Monday, May 30, 2022

ناصر معین

یوم پیدائش 29 مئی 1961

اک مسخرہ سا بن کے زمانے میں رہ گئے  
تا عمر ہم تو ہنسنے ہنسانے میں رہ گئے

پانی ہمارے سر سے بھی اوپر نکل گیا  
ہم ہیں کہ بس قیاس لگانے میں رہ گئے
 
 دشمن ہمارا آگیا دہلیز کے قریب
ہم دوستوں کو شعر سنانے میں رہ گئے

 بھائی کے گھر میں چولہا بھی جلنا محال تھا
ہم تھے کہ گھر کو اپنے سجانے میں رہ گئے  

مطلب پرست تھا ہمیں دیتا رہا فریب 
ہم دوستی کو اپنی نبھانے میں رہ گئے 

اک گھر بنا کے ٹوٹ گئے تھے ہم اسقدر
 باقی تو عمر قرض چکانے میں رہ گئے  

 ظلم و ستم کا سلسلہ ہوتا رہا دراز
ہم صرف اپنی جان بچانے میں رہ گئے    

آنسو بہا رہے ہیں کہ وہ دور اب نہیں
ہم زلف جان جاں کے سجانے میں رہ گئے  

دیدار باپ ماں کا نہیں ہو سکا نصیب
ہم تو عرب میں پیسہ کمانے میں رہ گئے 

خستہ ہے سب کا حال ، سبھی حاشیے پہ ہیں
  دیوارِ مسلکی ہم اٹھانے میں رہ گئے  

اب تخت و تاج اپنی حکومت نہیں رہی
ہم فاختہ حضور اڑانے میں رہ گئے 

خود اتنا گرگئے ہمیں اسکا گماں نہ تھا
نیچا ہمیشہ انکو گرانے میں رہ گئے 

بڑھتا گیا ہجوم غموں کا اف ! اس قدر
جھوٹی ہنسی لبوں پہ دکھانے میں رہ گئے 

رخصت ہوئی جوانی ، ضعیفی کب آگئی 
ہم زندگی کا بوجھ اٹھانے میں رہ گئے   

اعمال نامے اپنے گناہوں سے پر رہے 
ہم دوسروں کے عیب گنانے میں رہ گئے

ناصر ! وہ پست حوصلہ کرتا رہا سدا
 ہم خود کو باوفا ہی دکھانے میں رہ گئے

ناصر معین



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...