اک مسخرہ سا بن کے زمانے میں رہ گئے
تا عمر ہم تو ہنسنے ہنسانے میں رہ گئے
پانی ہمارے سر سے بھی اوپر نکل گیا
ہم ہیں کہ بس قیاس لگانے میں رہ گئے
دشمن ہمارا آگیا دہلیز کے قریب
ہم دوستوں کو شعر سنانے میں رہ گئے
بھائی کے گھر میں چولہا بھی جلنا محال تھا
ہم تھے کہ گھر کو اپنے سجانے میں رہ گئے
مطلب پرست تھا ہمیں دیتا رہا فریب
ہم دوستی کو اپنی نبھانے میں رہ گئے
اک گھر بنا کے ٹوٹ گئے تھے ہم اسقدر
باقی تو عمر قرض چکانے میں رہ گئے
ظلم و ستم کا سلسلہ ہوتا رہا دراز
ہم صرف اپنی جان بچانے میں رہ گئے
آنسو بہا رہے ہیں کہ وہ دور اب نہیں
ہم زلف جان جاں کے سجانے میں رہ گئے
دیدار باپ ماں کا نہیں ہو سکا نصیب
ہم تو عرب میں پیسہ کمانے میں رہ گئے
خستہ ہے سب کا حال ، سبھی حاشیے پہ ہیں
دیوارِ مسلکی ہم اٹھانے میں رہ گئے
اب تخت و تاج اپنی حکومت نہیں رہی
ہم فاختہ حضور اڑانے میں رہ گئے
خود اتنا گرگئے ہمیں اسکا گماں نہ تھا
نیچا ہمیشہ انکو گرانے میں رہ گئے
بڑھتا گیا ہجوم غموں کا اف ! اس قدر
جھوٹی ہنسی لبوں پہ دکھانے میں رہ گئے
رخصت ہوئی جوانی ، ضعیفی کب آگئی
ہم زندگی کا بوجھ اٹھانے میں رہ گئے
اعمال نامے اپنے گناہوں سے پر رہے
ہم دوسروں کے عیب گنانے میں رہ گئے
ناصر ! وہ پست حوصلہ کرتا رہا سدا
ہم خود کو باوفا ہی دکھانے میں رہ گئے
No comments:
Post a Comment