یوم پیدائش 28 اپریل 1968
چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا
اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا
کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے
قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا
کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے
سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا
ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا
اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا
اب ہے کوئی حسین نہ لشکر حسین کا
سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا
اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے
دکھ اس سے جو ملا اسے راحت سمجھ لیا
اطہر شکیل
No comments:
Post a Comment