سب کی نظروں میں مجھے تو معتبر اس نے کیا
ذکر میرا ہر غزل میں جان کر اس نے کیا
مدتوں وہ مجھکو اپنا ہم سفر کہتا رہا
چلتے چلتے راہ میں پھر در بدر اس نے کیا
وہ تو سازش رچ رہا تھا اور میں تھا بے خبر
پھر بھی میرے ساتھ میں پورا سفر اس نے کیا
رہ گزار عشق میں جب جب ہوئی رسوائیاں
مجھ سے الفت کا فسانہ مختصر اس نے کیا
آنکھ سے آنسُو ٹپک کر گر پڑے رخسار پر
شام کو پھر یاد جاناں میں سحر اس نے کیا
پھول خوشبو چاند تارے استعارے ہیں مگر
ان سبھی لفظوں کو میرے نام پر اس نے کیا
دل کی جب سونی حویلی میں صدا گونجی کہیں
ذکر تنہائی میں ان کا رات بھر اس نے کیا
ایک دن شارق تری منزل قریب آ جائے گی
تجھکو بھی کرنا پڑے گا جو سفر اس نے کیا
No comments:
Post a Comment