دیار عشق میں روشن دماغ تھے ہم بھی
وہ خوش نظر تھا بہت سبز باغ تھے ہم بھی
ہر ایک رشتہ تھا منکر ہماری ہستی سے
نگار زیست کے دامن کا داغ تھے ہم بھی
خزاں کا دور بھی ہوتا تو فصل گل ہوتی
کسی کے فیض نظر سے وہ باغ تھے ہم بھی
یہ اور بات ہمیں آج تم نہ پہچانو
تمہاری بزم کا روشن چراغ تھے ہم بھی
مزاج ہی نہیں ملتا تو دوستی کیسی
وہ تند خو تھا بہت بد دماغ تھے ہم بھی
کہیں پہ چاند کہیں آئنہ کہیں گل تھے
یہ تم سے کس نے کہا ہے ایاغ تھے ہم بھی
وہ ہم کو ڈھونڈ بھی لیتا تو کیا برا ہوتا
کہ اس کی ذات کے شبنمؔ سراغ تھے ہم بھی
No comments:
Post a Comment