دریاؤں کو حال سنا کر رقص کیا
صحراؤں کی خاک اڑا کر رقص کیا
قیس مجھے اس بات پہ حیرت ہوتی ہے
تو نے کیسے دشت میں جا کر رقص کیا
ان لوگوں کی حالت دیکھنے والی تھی
جن لوگوں نے وجد میں آ کر رقص کیا
جب میری آواز نہ پہنچی کانوں تک
پھر میں نے تحریر میں آ کر رقص کیا
طوق گلے میں اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں
گھنگرو پہنے ہوش گنوا کر رقص کیا
دولت والے مست ہوئے ایوانوں میں
درویشوں نے اشک بہا کر رقص کیا
بھید کُھلا جس شخص پہ تیرے ہونے کا
اس نے تیرے قرب کو پا کر رقص کیا
مستحسن میں جامی ہوں منصور نہیں
دلبر کو اشعار سنا کر رقص کیا
No comments:
Post a Comment