Urdu Deccan

Sunday, June 5, 2022

شمشاد شاد

ہماری جان کا دشمن سراسر ہو گیا پانی
خدایا خیر اب تو سر سے اوپر ہو گیا پانی

گرو دوارہ، کلیسا، مندر و مسجد بھی جل تھل ہیں
نہ جانے کس کی شہ پر اتنا خودسر ہو گیا پانی

ہے شامل اس کی فطرت میں جو کم ظرفی کا عنصر بھی 
ہوا کے زور پر آپے سے باہر ہو گیا پانی

زمیں پر بیٹھ کر اس بات کی تحقیق جاری ہے
قمر کی سطح سے ناپید کیونکر ہو گیا پانی

بجھانے تشنگی آئیں نہ جب دریا کی لہریں تو
نچوڑی ریت ساحل کی میسر ہو گیا پانی

شہنشاہِ وفا عباسؓ کے بازو کٹے جس دم
ہوا رو رو کے کہتی تھی ستمگر ہو گیا پانی

پلایا شاؔد یہ کہہ کر دمِ آخر نگاہوں سے
مَرو اب چین سے اب تو میسر ہو گیا پانی


شمشاد شاؔد

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...