خدایا خیر اب تو سر سے اوپر ہو گیا پانی
گرو دوارہ، کلیسا، مندر و مسجد بھی جل تھل ہیں
نہ جانے کس کی شہ پر اتنا خودسر ہو گیا پانی
ہے شامل اس کی فطرت میں جو کم ظرفی کا عنصر بھی
ہوا کے زور پر آپے سے باہر ہو گیا پانی
زمیں پر بیٹھ کر اس بات کی تحقیق جاری ہے
قمر کی سطح سے ناپید کیونکر ہو گیا پانی
بجھانے تشنگی آئیں نہ جب دریا کی لہریں تو
نچوڑی ریت ساحل کی میسر ہو گیا پانی
شہنشاہِ وفا عباسؓ کے بازو کٹے جس دم
ہوا رو رو کے کہتی تھی ستمگر ہو گیا پانی
پلایا شاؔد یہ کہہ کر دمِ آخر نگاہوں سے
مَرو اب چین سے اب تو میسر ہو گیا پانی
No comments:
Post a Comment