ڈھونڈ لیتا ہوں وجہ کوئی نبھانے کے لیے
ورنہ باتیں ہیں کئی چھوڑ کے جانے کے لیے
ہم تھے خود دار سو گمنام رہے ساری عمر
لوگ کم ظرف بنے نام کمانے کے لیے
تیرے میسج کو سنبھالا ہے بڑی مدت سے
دل مچل جائے تو اوقات دکھانے کے لیے
تو یہ سمجھیں کہ اثر دل پہ نہیں ہوتا ہے
جب کہ پھر موت تو عبرت ہے زمانے کے لیے
وہ جو بے نام سا اک ربط تھا اب ختم کریں
خط کے اوراق نکالے ہیں جلانے کے لیے
جب ترے شہر میں عشاق کا مجمع ہوگا
ہم بھی آئیں گے وہاں شعر سنانے کے لیے
ٹھوکریں کھا کے جو سجدے میں گرا اتنا کہا
معذرت میرے خدا دیر سے آنے کے لیے
مرزا راحل
No comments:
Post a Comment