یوں اپنے آپ کو تم بے وقار مت کرنا
امیر زادوں میں اپنا شمار مت کرنا
کسی کا شیشئہ دل چور چور ہو جائے
کبھی بھی ایسی روش اختیار مت کرنا
مری وفا مرے اخلاص کا تقاضہ ہے
کبھی وفائوں کی سرحد کو پار مت کرنا
فسانہ ہائے محبت کی آبرو رکھنا
کبھی بھی آنکھوں کو تم اشک بار مت کرنا
کسک کی لذتیں دل کو پسند ہیں میرے
چلانا تیر مگر دل کے پار مت کرنا
نواحِ جاں میں رہتا ہے دور رہ کر بھی
یہ انکشافِ وفا زینہار مت کرنا
اگر میں لوٹ کے آجائوں تو غنیمت ہے
مسافروں کا مگر انتظار مت کرنا
بھڑک اٹھے نہ کہیں برف زار میں شعلے
گلوں کی وادی کو تم خار زار مت کرنا
وہ لاکھ سونے کا بھی روپ دھار کر آئیں
فریب کاروں کا تم اعتبار مت کرنا
مجھے ملا ہے بزرگوں سے یہ سبق جاویدؔ
کسی کا دامنِ دل تار تار مت کرنا
No comments:
Post a Comment