میری نظر کو یہ پرچھائیاں پسند نہیں
سخن شناس ہوں خاموشیاں پسند نہیں
حصارِِ عشقِ حقیقی میں رہنا چاہتا ہے
میرے ضمیر کو آزادیاں پسند نہیں
میرے قریب نہ آئیں یہ آندھیوں سے کہو
چراغِِ عشق ہوں تاریکیاں پسند نہیں
قدومِ سدرہ نشیں تک میری رسائی ہے
میں آسماں ہوں مجھے پستیاں پسند نہیں
کُھلی فضاؤں میں اُڑنے کا شوق ہے مجھکو
میں کیا کروں مجھے تنہائیاں پسند نہیں
نچھوڑ سکتا ہوں دامن میں کہساروں کا
وہ بے طلب مجھے اُونچائیاں پسند نہیں
خطیبِِ نوکِ سناں کا میں اک مقلد ہوں
اسی لئے ستم آرائیاں پسند نہیں
تیرا مزاج انوکھا مزاج ہے دعبل
وہ اور ہیں جنہیں سچائیاں پسند نہیں
No comments:
Post a Comment