تیری آہٹ جب سنائی دے مجھے
تجھ سوا پھر کیا دکھائی دے مجھے
ذائقہ چکھ لوں ذرا سا ہجر کا
یار سے اک پل جدائی دے مجھے
میں لکھوں افلاک کے قصے تمام
خاک کے اندر رسائی دے مجھے
پھنس گیا عشق و خرد کے درمیاں
کیسے رستہ پھر سجھائی دے مجھے
تو نظر سے گر گیا ہے دوستا
چل پرے ہٹ مت صفائی دے مجھے
میں گنہ کے لفظ سے نفرت کروں
پارسائی پارسائی دے مجھے
اس نہج پر اب ریاضت ہے مری
بولے گونگا اور سنائی دے مجھے
کر رہی ہے اب تقاضہ شاعری
فکرِ دنیا سے رہائی دے مجھے
وا کر اب ماجد پہ اپنی رحمتیں
حرفِ تازہ کی کمائی دے مجھے
No comments:
Post a Comment