فصل گل ہو کہ خزاں سب میں چٹکتے آئے
ہم ہر اک دور کے دامن میں مہکتے آئے
ٹوٹ جانا تو ستاروں کا مقدر ٹھہرا
ہم چمک والے ہیں چمکیں گے چمکتے آئے
جو روایت ہے ازل سے وہ ہے انجام اپنا
اہل دل وقت کی سولی پہ لٹکتے آئے
کتنے الزام تھے طعنے تھے شکایت تھی بہت
سب اسی در پہ مگر سر کو پٹکتے آئے
ہم جنوں والوں سے کب دور تھی منزل راہیؔ
عقل والے تھے جو راہوں میں بھٹکتے آئے
No comments:
Post a Comment