Urdu Deccan

Sunday, July 17, 2022

تنویر احمد علوی

یوم پیدائش 16 جولائی 1920

لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے 
وقت خوشبو ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے 

آبگینوں کا شجر ہے کہ یہ احساس وجود 
جب بکھرتا ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے 

دل کا یہ شہر صدا اور یہ حسیں سناٹا 
وادئ جاں میں اترتا ہی چلا جاتا ہے 

اب یہ اشکوں کے مرقعے ہیں کہ سمجھتے ہیں نہیں 
نقش پتھر پہ سنورتا ہی چلا جاتا ہے 

خون کا رنگ ہے اس پہ بھی شفق کی صورت 
خاک در خاک نکھرتا ہی چلا جاتا ہے 

واپسی کا یہ سفر کب سے ہوا تھا آغاز
نقش پا جس کا ابھرتا ہی چلا جاتا ہے

جیسے تنویرؔ کے ہونٹوں پہ لکھی ہے تاریخ
ذکر کرتا ہے تو کرتا ہی چلا جاتا ہے

تنویر احمد علوی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...