بالیدگئِ جاں کو بھی موجِ صبا نہ مانگ
بیمار سارے شہر ہیں، تازہ ہوا نہ مانگ
ہر شخص ڈھل چکا ہے اب اعداد میں یہاں
اجداد کا اب ہم سے زمانے پتہ نہ مانگ
رفتار سے اب بھیڑ کی رستوں پہ بہنا سیکھ
اب سست ہم سفر سے کہیں راستا نہ مانگ
بیگانہ ہو چکی ہیں جو زیور سے شرم کے
ان شوخ تتلیوں کے پروں سے حیا نہ مانگ
ہر گز نہیں بدلتے مشیّت کے فیصلے
اللہ کی رضا کے سوا بھی دعا نہ مانگ
اس عکسِ آئینہ سے نہ کوئی امید رکھ
یہ ہے سرائے فانی یہاں آسرا نہ مانگ
اِس طنزیہ نمک کو دوائی سمجھ امینؔ
زخموں کے واسطے کوئی برگِ حنا نہ مانگ
No comments:
Post a Comment