تیرگی سر نگوں ہے زمانے کے بعد
روشنی ہو گئی تیرے آنے کے بعد
دل ہو ہلکا نہ کیوں اپنی آنکھوں سے جب
کچھ ندامت کے آنسو گرانے کے بعد
جب سے میرے تصور میں آیا ہے وہ
نام اس کا لیا ہر فسانے کے بعد
ان کی یادوں کے نغموں کا ہے یہ اثر
ہوش گم ہو گئے گنگنانے کے بعد
تھا مسافر وہ کیسا ملا چل دیا
ڈھونڈتا ہی رہا اس کو جانے کے بعد
ایسا بوئیں یہاں زیست کے کھیت کو
مسکرائیں یہاں پھل بھی آنے کے بعد
ہے وجود اپنا ایسا کہ حیراں ہیں سب
اور وسعت ملی ہے مٹانے کے بعد
تخم الفت جو بویا تھا ہم نے کبھی
نذر آتش ہوا لہلہا نے کے بعد
میرے قد کو ملی ہے بلندی "ثنا"
آپ کے در پہ سر کو جھکانے کے بعد
No comments:
Post a Comment