تو کیا کریں گے محبت میں وہ ملا نہیں جب
ہمارے ہونے نہ ہونے کا فائدہ نہیں جب
وہ کائنات کی پرتوں کو کھولنے بیٹھا
کہ اُس کے ہاتھ سے بندِ قبا کُھلا نہیں جب
کہیں یہ سارا جہاں سنگ ہی نہ ہو جائے
طلسم آپ کی آنکھوں کا ٹوٹتا نہیں جب
ہمارے حصے میں لازم ہے کچھ تو آ جائے
وصال و ہجر سے یہ عشق ماورا نہیں جب
یہ کیسے موڑ پہ آئے ہو لوٹ کر واپس
اُجاڑ پن کے سوا اور کچھ بچا نہیں جب
تمھاری آنکھوں سے لپٹا ہے میرے دل کا سِرا
بکھرنے لگتے ہیں اُس دم تُو دیکھتا نہیں جب
زمین زادے کریں کیا تری بہشتوں کا
ترے زماں میں زمیں کی ہی کوئی جا نہیں جب
تو کیا خیال ہے کوئی بشر تمھارا ہے؟
غریب شخص تمھارا تو خود خُدا نہیں جب
فیض محمد شیخ
No comments:
Post a Comment