Urdu Deccan

Sunday, July 17, 2022

فاروق جائسی

یوم پیدائش 08 جولائی 1952

حسرت ہو تمناؤں کا سیلاب ہو کیا ہو 
تم زندہ حقیقت ہو کوئی خواب ہو کیا ہو 

جذبے کی صداقت ہو کہ احساس کی خوشبو 
تم شہر محبت کا حسیں باب ہو کیا ہو 

قدموں کی بھی آہٹ میں ہے اک ساز کی آواز 
بربط ہو کہ وینا ہو کہ مضراب ہو کیا ہو 

اے وعدۂ فردا کے سمندر مرے حق میں 
کشتی ہو کہ ساحل ہو کہ گرداب ہو کیا ہو 

مل جاؤ جسے اس کا چمک جائے مقدر 
تم ظل ہما ہو پر سرخاب ہو کیا ہو 

تم آؤ مرے گھر تو بتاؤ کہ سر فرش 
مخمل ہو کہ اطلس ہو کہ کمخواب ہو کیا ہو 

فاروقؔ کے ہاتھ آئے نہ تم ہو کے بھی نزدیک 
خوشبو ہو کہ سایہ ہو کہ سیماب ہو کیا ہو

فاروق جائسی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...