حسرت ہو تمناؤں کا سیلاب ہو کیا ہو
تم زندہ حقیقت ہو کوئی خواب ہو کیا ہو
جذبے کی صداقت ہو کہ احساس کی خوشبو
تم شہر محبت کا حسیں باب ہو کیا ہو
قدموں کی بھی آہٹ میں ہے اک ساز کی آواز
بربط ہو کہ وینا ہو کہ مضراب ہو کیا ہو
اے وعدۂ فردا کے سمندر مرے حق میں
کشتی ہو کہ ساحل ہو کہ گرداب ہو کیا ہو
مل جاؤ جسے اس کا چمک جائے مقدر
تم ظل ہما ہو پر سرخاب ہو کیا ہو
تم آؤ مرے گھر تو بتاؤ کہ سر فرش
مخمل ہو کہ اطلس ہو کہ کمخواب ہو کیا ہو
فاروقؔ کے ہاتھ آئے نہ تم ہو کے بھی نزدیک
خوشبو ہو کہ سایہ ہو کہ سیماب ہو کیا ہو
No comments:
Post a Comment