اہلِ منصب ہوں، سبک ساری نہیں کر سکتا
شعر سن لیجے، اداکاری نہیں کر سکتا
کچھ بھی کر سکتا ہوں، لیکن مَیں بہ نامِ جدّت
میر و اقبال سے غداری نہیں کر سکتا
اُسے نقّاد سمجھتے ہیں مِرے شہر کے لوگ
ایک بھی بات جو معیاری نہیں کر سکتا
شاعری کارِ مشقّت ہے، سو اِس سے انصاف
دال اور دلیے کا بیوپاری نہیں کر سکتا
جس طرح بولتا ہے تیرا دِوانہ سرِ بزم
بات یُوں کوئی بھی درباری نہیں کر سکتا
تیرے سائل کے سوا دشتِ سخن میں کوئی
ہرے لفظوں کی شجرکاری نہیں کر سکتا
No comments:
Post a Comment