کس قدر تجھ کو تری ذات سے ہٹ کر سوچا
حد تو یہ تجھے اوروں سے لپٹ کر سوچا
محو ہو کر تری خوشبو کے گماں میں اکثر
ہم نے صدیوں کو بھی لمحوں میں سمٹ کر سوچا
عشق بنیاد میں شامل تھا سدا سے اپنی
دل کے محور سے نہ ہم نے کبھی ہٹ کر سوچا
فکر کب شور کے پہلو میں نمو پاتی ہے
سوچنے والوں نے آشوب سے کٹ کر سوچا
ہر تعلق میں ترا نقش ابھر آتا ہے
ہم نے جب بھی کسی مورت سے لپٹ کر سوچا
بارہا کر دیا حالات نے مسمار سعیدؔ
اپنی قامت سے نہ ہم نے کبھی گھٹ کر سوچا
No comments:
Post a Comment