Urdu Deccan

Sunday, August 28, 2022

اظہر ہاشمی

یوم پیدائش 26 اگست 1990

جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 
ستم گر کی ستائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مجھے تنہائی پڑھنی ہے مگر خاموش لہجے میں 
یہی محفل کی خواہش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مرے افکار پہ بولے بڑی تہذیب سے زاہد 
مقدر آزمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

یہ جو بے حال سا منظر یہ جو بیمار سے ہم تم 
سیاست کی نوازش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ادھر ہے جام ہاتھوں میں لبوں پہ مسکراہٹ ہے 
ادھر جب خوں کی بارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ملازم بننا تھا کس کو ملازم بن گیا کوئی 
ہنر زیر سفارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

زباں آزاد ہے جو بھی وہی تو زندہ ہے لیکن 
زباں پہ کیسی بندش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

عداوت کی یہاں اظہرؔ جو اک چنگاری اٹھی تھی 
وہ بنتی جاتی آتش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں

اظہر ہاشمی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...