دھرم میں لپٹی وطن پرستی کیا کیا سوانگ رچائے گی
مسلی کلیاں، جھلسے گلشن زرد خزاں دکھلائے گی
یورپ جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے
خطرا ہے وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی
جرمن گیس کدوں سے اب تک خون کی بدبو آتی ہے
اندھی وطن پرستی ہم کو اس رستے لے جائے گی
اندھے کنویں میں جھوٹ کی ناؤ تیز چلی تھی مان لیا
لیکن باہر روشن دنیا تم سے سچ بلوائے گی
نفرت میں جو پلے بڑھے ہیں نفرت میں جو کھیلے ہیں
نفرت دیکھو آگے آگے ان سے کیا کروائے گی
فنکاروں سے پوچھ رہے ہو کیوں لوٹائے ہیں سمان
پوچھو کتنے چپ بیٹھے ہیں شرم انہیں کب آئے گی
یہ مت کھاؤ وہ مت پہنو عشق تو باکل کرنا مت
دیش دروہ کی چھاپ تمہارے اوپر بھی لگ جائے گی
یہ مت بھولو اگلی نسلیں روشن شعلہ ہوتی ہیں
آگ کریدوگے چنگاری دامن تک تو آئے گی
No comments:
Post a Comment