سفر طویل ہے پُرخار رہ گزر ہے ابھی
زمانے بھر کی عداوت کا رخ اِدھر ہے ابھی
کڑکتی دھوپ کی شدت کو جذب کرلیں گے
ہمارے سر پہ گھنی چھاؤں کا اثر ہے ابھی
جدھر بھی دیکھیے موسم کے ایک تیور ہیں
اک امتحاں کے شکنجے میں ہر بشر ہے ابھی
بکھیرتی تھی جو خوشبو بھی چھاؤں بھی بسملؔ
مری امید کی وہ شاخ بے ثمر ہے ابھی
No comments:
Post a Comment