وعدۂ وصل نہیں اذنِ جدائی بھی نہیں
وقید و بندش بھی نہیں اور رہائی بھی نہیں
کتنا چالاک ہے سفاک طبیعت قاتل
سر اٹھایا بھی نہیں آنکھ جھکائی بھی نہیں
کیا وہ اثارِ قدیمہ کی نشانی بھی نہ تھی
تم محافظ رہے تم نے بچائی بھی نہیں
اک نظر ڈال ذرا آفتِ زلزالہ پر
آہِ مظلوم کی کیا اتنی رسائی بھی نہیں
ہم تو واقف ہیں ترے مسلکِ باطل سے مگر
تیرا شکوہ بھی نہیں تیری دہائی بھی نہیں
ہمسفر بھی جو نہ تھے اب ہیں امینِ منزل
معتبر اپنی یہاں آبلہ پائی بھی نہیں
راس اب ارضِ وطن آئے نہ آئے شوکتؔ
یہ زمین اپنی نہیں ہے تو پرائی بھی نہیں
No comments:
Post a Comment