Urdu Deccan

Sunday, August 21, 2022

نظیر اکبرآبادی

یوم وفات 16 اگست 1830

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم 
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم 

مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں 
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم 

کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر 
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم 

ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا 
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم 

طاق ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی 
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم 

باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل 
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم 

کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیرؔ 
تاکہ شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم 

نظیر اکبرآبادی


 

No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...