Urdu Deccan

Sunday, August 21, 2022

ساغر صدیقی

اے حسن لالہ فام! ذرا آنکھ تو ملا
خالی پڑے ہیں جام! ذرا آنکھ تو ملا

کہتے ہیں آنکھ آنکھ سے ملنا ہے بندگی
دنیا کے چھوڑ کام! ذرا آنکھ تو ملا

کیا وہ نہ آج آئیں گے تاروں کے ساتھ ساتھ
تنہائیوں کی شام! ذرا آنکھ تو ملا

یہ جام یہ سبو یہ تصور کی چاندنی
ساقی کہاں مدام! ذرا آنکھ تو ملا

ساقی مجھے بھی چاہئے اک جام آرزو
کتنے لگیں گے دام! ذرا آنکھ تو ملا

پامال ہو نہ جائے ستاروں کی آبرو
اے میرے خوش خرام! ذرا آنکھ تو ملا

ہیں راہ کہکشاں میں ازل سے کھڑے ہوئے
ساغرؔ ترے غلام! ذرا آنکھ تو ملا

ساغر صدیقی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...