کچھ اور زمانہ کہتا ہے کچھ اور ہے ضد میرے دل کی
میں بات زمانہ کی مانوں یا بات سنوں اپنے دل کی
دنیا نے ہمیں بے رحمی سے ٹھکرا جو دیا اچھا ہی کیا
ناداں ہیں سمجھے بیٹھے تھے نبھتی ہے یہاں دل سے دل کی
انصاف محبت سچائی وہ رحم و کرم کے دکھلاوے
کچھ کہتے زباں شرماتی ہے پوچھو نہ جلن میرے دل کی
جو بستی ہے انسانوں کی انسان مگر ڈھونڈھے نہ ملا
پتھر کے بتوں سے کیا کیجے فریاد بھلا ٹوٹے دل کی
No comments:
Post a Comment