Urdu Deccan

Saturday, August 20, 2022

منیرؔ شکوہ آبادی

یوم وفات 10 اگست 1880

ہاتھ ملواتی ہیں حوروں کو تمہاری چوڑیاں 
پیاری پیاری ہے کلائی پیاری پیاری چوڑیاں 

بند کر دیتی ہیں سب کو پیاری پیاری چوڑیاں 
بولتی ہیں لاکھ میں بڑھ کر تمہاری چوڑیاں 

اے بتو سرکش اگر ہو آتش رنگ حنا 
شعلۂ جوالہ بن جائیں تمہاری چوڑیاں 

برہمی حلقہ بگوشوں کی انہیں منظور ہے 
پھوٹ ڈلواتی ہیں لاکھوں میں تمہاری چوڑیاں 

حوروں کی آنکھوں کے حلقے اے پری موجود ہیں 
ان بتانوں سے چڑھاؤ پیاری پیاری چوڑیاں 

دل میں چھید کر خون کی بوندوں سے ہر ریزہ بھرے 
ٹوٹ کر بن جائیں بوندے کی کٹاری چوڑیاں 

سرو قامت ہیں ہزاروں دام الفت میں اسیر 
طوق قمری ہیں تمہاری پیاری پیاری چوڑیاں 

صدقے ہوتی ہیں برابر ان کلائی پہنچوں پر 
گرد پھرتی ہیں خوشی سے باری باری چوڑیاں 

دست نازک نے زمانے کو کیا حلقہ بگوش 
کیا کھلے بندوں نظر آئیں تمہاری چوڑیاں 

اے فلک ان کو نہیں بھاتا ستاروں کا بھی جوڑ 
کہتے ہیں میری بلا پہنے کنواری چوڑیاں 

روئے روشن پر جو تم نے ہاتھ رکھا ناز سے 
چاند کا ہالہ نظر آئیں تمہاری چوڑیاں 

حوریں بھیجیں گی تجھے اے رشک گل فردوس سے 
لائے گی مشاطہ فصل بہاری چوڑیاں 

کیوں نہ نکلے نوک خوں ریزی کے ہر انداز میں 
لوٹ کر بھی دل میں چبھتی ہیں تمہاری چوڑیاں 

بل نکالا سیکڑوں بانکوں کا دست ناز سے 
بانک کے فن میں ہوئیں یکتا تمہاری چوڑیاں 

خون کی بوندیں بنی ہیں چننیاں یاقوت کی 
دل میں چبھ کر دے رہی ہیں زخم کاری چوڑیاں 

کیوں نہ ہوں حلقہ بگوش آ کر حسینان بہشت 
حوروں کے کانوں کی بالی ہیں تمہاری چوڑیاں 

میں نے ہاتھا پائی جب کی سرد مہرے سے کہا 
گرم جوشی سے ہوئیں ٹھنڈی ہماری چوڑیاں 

دیکھ لو اے گل رخو مرغان دل پابند ہیں 
بال کے پھندے کی صورت ہیں تمہاری چوڑیاں 

کرتے ہیں اپنے زبانوں میں ترے ہاتھوں کا وصف 
بولتی ہیں ایک منہ ہو کر ستاری چوڑیاں 

ہر ستارے کی چمک نور جہان حسن ہے 
رکھتی ہیں حکم جہانگیری تمہاری چوڑیاں 

جان پڑ جاتی ہے دست ناز سے ہر چیز میں 
رنگ بن کر چڑھتی ہیں ہاتھوں میں ساری چوڑیاں 

گو گہر ہو اے پری ناز نگاہ حور کا 
عینک رضواں کی حلقہ ہیں تمہاری چوڑیاں 

کر کے ہاتھا پائی ڈولی میں کیا ان کو سوار 
صاف ٹھنڈی ہو گئیں وقت سواری چوڑیاں 

بوندوں کے حلقے نہیں پڑتے ہیں اے گل نہر میں 
ڈالتا ہے ہندو ابر بہاری چوڑیاں 

خون لاکھوں کا کیا کرتے ہیں ہر جھنکار سے 
خوب سچا جوڑ چلتی ہیں تمہاری چوڑیاں 

غیر ڈیوڑھی پر کیا کرتے ہیں آرائش کا ذکر 
حلقۂ بیرون در ٹھہری تمہاری چوڑیاں 

ناز سے فرماتے ہیں لوں کس طرح تیرا سلام 
ہاتھ اٹھ سکتے نہیں ایسی ہیں بھاری چوڑیاں 

اتری پڑتی ہیں پھسل کر دست نازک سے مدام 
کس طرح ٹھہریں کلائی میں تمہاری چوڑیاں 

مار ڈالا آتش غم نے جلا کر اے منیرؔ 
ٹھنڈی کر دیں سوگ میں اس گل نے ساری چوڑیاں

منیرؔ شکوہ آبادی



No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...