بنا پیچھے مڑے کچھ لوگ بھاگے اور آگے
میرے ادراک کی سرحد سے آگے اور آگے
طبعیت منجمد ہوتی کسی منزل پہ کیوںکر
سفر میں عشق کے ملتے تھے دھاگے اور آگے
یہ کن مٹتے ہوئے چہروں کی بستی ہے یہاں پر
ہیولے ہی ہیولے مجھ کو لاگے اور آگے
ذرا سی دیر ٹھہرے اور خوابوں کے نگر سے
دوبارہ چل دئیے جب سو کے جاگے اور آگے
ہمارا مستقل رکنا یہاں ممکن نہیں ہے
یہاں سے بھی ہمیں جانا ہے آگے اور آگے
No comments:
Post a Comment